Friday, 13 March 2020

معراج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

● معراج جسمانی اور دیدار الٰہی قرآن وحدیث کی روشنی میں :

اللہ تعالی نے مخلوق کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا، ہر نبی کو ان کے دور کے تقاضوں کے مطابق معجزات عطا کئے، امت جس فن میں کمال رکھتی تھی حضرات انبیاء کرام علیہم السلام بھی اسی صنف سے اس شان کا معجزہ پیش کرتے کہ تمام افراد کی عقلیں  دنگ رہ جاتیں ، صبح قیامت تک آنے والی تمام نسل انسانی چونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہی کی امت ہے، اللہ تعالی نے اسی لحاظ سے آپ کو معجزات عطا فرمائے، آج سائنس و ٹکنالوجی‘ ترقی اور عروج کی منزلیں طئے کرتی ہوئی اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ انسان سورج کی شعاعوں  کو گرفتار کر رہا ہے، خلائی کائنات کا سفر کرتے ہوئے چاند تک پہنچ گیا ہے، لیکن سائنس اور ماہرین فلکیات اپنی اس حیرت انگیز ترقی کے باوجود حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے معجزۂ معراج کی عظمت و رفعت اور بلندیوں کا تصور نہیں کر سکتے۔

سائنسی دنیا جس قدر ترقی کرتی جار ہی ہے اسی قدر حقائق اسلامیہ آشکار ہوتے جا رہے ہیں ، آج کم فہم اور سطحی علم رکھنے والے افراد جو اعتراض کرتے ہیں  کہ ’’یہ کیسے ممکن ہیکہ رات کے مختصر سے حصہ میں  اتنا طویل سفر کیا گیا ہو‘‘ ان پر بھی واضح ہوگیا کہ انسان کی بنائی ہوئی ’’بجلی‘‘ کی سرعت کا حال یہ ہے کہ وہ ایک سکنڈ میں  تین لاکھ کیلومیٹر کا سفرطے کرتی ہے، جب مخلوق کی بنائی ہوئی ’’روشنی‘‘ کی قوتِ سرعت اس شان کی ہے تو قادر مطلق نے جنہیں  سراپانور بناکر بھیجاہے اس نورِ کامل کی سرعتِ رفتار اور طاقتِ پرواز کا کون اندازہ کر سکتا ہے۔

○ ماہ رجب کی ستائیسویں شب اللہ تعالی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حالت بیداری میں مکہ مکرمہ سے بیت المقدس اور بیت المقدس سے ساتوں  آسمان‘ جنت و دوزخ اور ساتویں آسمان سے عرش بریں، ماوراء عرش جہاں  تک اس کو منظور تھا سیر کرائی اپنے قرب خاص و دیدار پر انوار کی سعادت سے مشرف فرمایا اور آپ کی وساطت سے امت کو نماز کا عظیم تحفہ عنایت فرمایا۔ معراج جسمانی قرآن کریم سے ثابت ہے: ارشاد الٰہی ہے: سُبْحَانَ الَّذِیْ أَسْرٰی بِعَبْدِه لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْأَقْصَي الَّذِي بَارَکْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ اٰيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ۔ ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندۂ خاص کو رات کے مختصر سے حصہ میں مسجد حرام سے مسجد اقصی تک سیر کرائی جس کے اردگرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ انہیں اپنی نشانیاں دکھائیں- بے شک وہی سننے والا دیکھنے والا ہے۔ (سورۃ بنی اسرائیل۔1)

جسمانی معراج کی واضح دلیل آیت معراج میں وارد ’’بعبدہ‘‘ کا لفظ ہے ’’عبد‘‘ کے معنی سے متعلق مفسرین نے فرمایا ہے کہ روح اور جسم کے مجموعہ کا نام ’’عبد‘‘ ہے عبد (بندہ) نہ صرف روح کو کہا جاسکتا ہے اور نہ محض جسم کو۔ لہٰذا لفظ عبد سے معلوم ہوا کہ معراج روح اقدس و جسم اطہر کے ساتھ ہوئی۔ "و تقرير الدليل أن العبد اسم لمجموع الجسد والروح ، فوجب أن يکون الإسراء حاصلاً لمجموع الجسد والروح".
(تفسیر رازی‘ سورۃ بنی اسرائیل۔ 1)

صحیح احادیث میں براق لائے جانے کا ذکر ملتا ہے،
(صحیح مسلم شریف حدیث نمبر 429۔ المستدرک علی الصحیحین للحاکم حدیث نمبر 8946 ۔تہذیب الآثار للطبری، حدیث نمبر 2771-مستخرج أبی عوانۃ ، حدیث نمبر 259مسند أبی یعلی الموصلی ، حدیث نمبر 3281مشکل الآثار للطحاوی، حدیث نمبر 4377جامع الأحادیث ، حدیث نمبر553 مسند أحمد ، حدیث نمبر12841مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ، حدیث نمبر 237)

ظاہر ہے کہ براق جیسے جانور پر روح اطہر نہیں بلکہ جسم منور کی سواری ہوتی ہے۔

سفر معراج سے متعلق حضرت ملا جیون رحمتہ اللہ علیہ تفسیرات احمدیہ میں آیت معراج کے تحت فرماتے ہیں:
و الأصح أنه کان فی اليقظة و کان بجسده مع روحه و عليه اهل السنة والجماعة فمن قال انه بالروح فقط او في النوم فقط فمبتدع ضال مضل فاسق۔
ترجمہ: صحیح ترین قول یہ ہیکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج شریف حالت بیداری میں جسم اطہر اور روح مبارک کے ساتھ ہوئی یہی اہل سنت و جماعت کا مذہب ہے لہٰذا جو شخص کہے کہ معراج صرف جسم کے ساتھ ہوئی یا نیند کی حالت میں ہوئی وہ بدعتی، گمراہ، گمراہ گر اور دائرہ اطاعت سے خارج ہے-
(تفسیرات احمدیہ ۔ص330)

• حضرت ملا جیون رحمتہ اللہ علیہ نے مزید لکھا ہے: و لذا قال اهل السنة باجمعهم ان المعراج الي المسجد الاقصي قطعي ثابت بالکتاب و الي سماء الدنيا ثابت بالخبر المشهور و الی مافوقه من السموات ثابت بالاحاد. فمنکر الاول کافر البتة و منکرالثاني مبتدع مضل ومنکرالثالث فاسق۔
 ترجمہ: اسی لئے اہل سنت وجماعت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سفر معراج مسجد حرام سے مسجد اقصی تک قطعی طور پر قرآن کریم سے ثابت ہے اور آسمانی دنیا تک کا سفر حدیث مشہور سے ثابت ہے اور ساتوں آسمان سے آگے خبر واحد سے ثابت ہے۔ چنانچہ جو شخص مسجد اقصی تک معراج کا انکار کرے وہ بالیقین کافر ہے جو مسجد اقصی سے آسمانی دنیا تک سفر کا انکار کرے وہ بدعتی گمراہ گر ہے اور آسمانوں کے آگے سفر کا انکار کرنے والا فاسق و فاجر ہے ۔(تفسیرات احمدیہ ، ص328)

● شب معراج اور دیدار حق تعالیٰ

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم بالا کی سیر کرتے ہوئے قدرت کی نشانیوں کا مشاہدہ فرمایا اور اللہ تعالی کے دیدار پر انوار کی نعمت لازوال سے مشرف ہوئے۔ جس کا قرآن کریم و احادیث صحیحہ میں کہیں اشارۃً اور کہیں صراحۃً ذکر موجود ہے چنانچہ واقعہ معراج کے ضمن میں ارشاد خداوندی ہے :
مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی۔
 ترجمہ:آپ نے جو مشاہدہ کیا دل نے اسے نہیں جھٹلایا۔ (سورۃ النجم:11)
 وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً أُخْرَي۔ ترجمہ: اور یقیناً آپ نے اُسے دو مرتبہ دیکھا۔(سورۃ النجم: 13)
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَي۔ ترجمہ: نہ نگاہ ادھر اُدھر متوجہ ہوئی اور نہ جلوۂ حق سے متجاوز ہوئی ۔(سورۃ النجم: 17) یعنی آپ کی نظر سوائے جمال محبوب کے کسی پرنہ پڑی ۔ لَقَدْ رَاٰي مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْکُبْرَي- ترجمہ: بیشک آپ نے اپنے رب کی نشانیوں  میں  سب سے بڑی نشانی (جلوۂ حق) کا مشاہدہ کیا۔ (سورۃ النجم۔ 18)

کتب صحاح و سنن میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت منقول ہے: وَدَنَا الْجَبَّارُ رَبُّ الْعِزَّةِ فَتَدَلَّي حَتّي کَانَ مِنْهُ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَي۔ ترجمہ: اور اللہ رب العزت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرب عطا کیا، مزید اور قرب عطا کیا یہاں  تک کہ آپ اس سے دو کمانوں  کے فاصلہ پر رہے بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب ہوئے۔
 (صحیح بخاری شریف، کتاب التوحید،باب قَوْلِہِ ( وَکَلَّمَ اللَّہُ مُوسَی تَکْلِیمًا). حدیث نمبر:7517۔مستخرج أبی عوانۃ،کتاب الإیمان،مبتدأ أبواب فی الرد علی الجہمیۃ وبیان أن الجنۃ مخلوقۃ، حدیث نمبر:270۔جامع الأصول من أحادیث الرسول،کتاب النبوۃ، أحکام تخص ذاتہ صلی اللہ علیہ وسلم، اسمہ ونسبہ، حدیث نمبر:8867) ۔

صحیح مسلم‘ صحیح ابن حبان ‘مسند ابو یعلی ‘جامع الاحادیث ‘الجامع الکبیر‘ مجمع الزوائد ‘ کنزل العمال‘ مستخرج ابو عوانہ، میں حدیث پاک ہے: عن عبدالله بن شقيق قال قلت لابي ذر لو رايت رسول الله صلي الله عليه وسلم لسالته فقال عن أي شيء کنت تساله قال کنت أسأله هل رايت ربك؟ قال ابو ذر قد سالت فقال "رايت نورا۔"
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں  نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: اگر مجھے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار کی سعادت حاصل ہوتی تو ضرور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرتا، انہوں  نے فرمایا تم کس چیز سے متعلق دریافت کرتے؟ حضرت عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دریافت کرتا کہ کیا آپ نے اپنے رب کا دیدارکیا ہے؟ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں  نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں  دریافت کیا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے دیکھا، وہ نور ہی نور تھا۔
 (صحیح مسلم،کتاب الإیمان،باب فِی قَوْلِہِ عَلَیْہِ السَّلاَمُ  نُورٌ أَنَّی أَرَاہ.وَفِی قَوْلِہِ  رَأَیْتُ نُورًا.حدیث نمبر:462۔مستخرج أبی عوانۃ،کتاب الإیمان، حدیث نمبر:287۔صحیح ابن حبان،کتاب الإسراء ،ذکر الخبر الدال علی صحۃ ما ذکرناہ ،حدیث نمبر:58۔جامع الأحادیث،حرف الراء ،حدیث نمبر:12640۔جمع الجوامع أو الجامع الکبیر للسیوطی، حرف الراء ، حدیث نمبر:12788۔مجمع الزوائد،حدیث نمبر:13840۔مسند أبی یعلی، حدیث نمبر:7163۔کنز العمال،حرف الفاء ،الفصل الثانی فی المعراج، حدیث نمبر:31864)

صحیح مسلم‘ مسند احمد‘ صحیح ابن حبان ‘مسند ابویعلی ‘معجم اوسط طبرانی ‘جامع الاحادیث ‘الجامع الکبیر ‘کنزل العمال‘ مستخرج ابو عوانہ میں حدیث پاک ہے: عن ابي ذر سألت رسول الله صلي الله عليه وسلم هل رأيت ربك؟ قال نور إني أراه۔ ترجمہ: حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ‘میں  نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: کیا آپ نے اپنے رب کا دیدار کیا؟ فرمایا: وہ نور ہے- بیشک میں اس کا جلوہ دیکھتا ہوں ۔
 (صحیح مسلم ، کتاب الایمان ،باب نورانی اراہ ،حدیث نمبر:461،مسند احمد، مسند ابی بکر حدیث نمبر:21351!21429)
 اس حدیث شریف میں  بھی صراحت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حق تعالی کا دیدار کیا‘ صحابہ کرام نے عرض کیا: کیا آپ نے رب کا دیدار کیا؟ جواباً ارشاد فرمایا: "نور إني أراه" وہ نور ہے میں ہی تو اسکو دیکھتا ہوں۔ یہ حدیث شریف کتب احادیث میں  مختلف الفاظ سے مذکور ہے (1) نور إني أراه۔ (صحیح مسلم  ،حدیث نمبر:461،مسند احمد ،حدیث نمبر:21351!21429)
 (2) فقال نورا إني أراه۔ ترجمہ: میں  نے جس شان سے دیکھا وہ نور ہی نور ہے ۔ (مسند احمد ،حدیث نمبر:21567) (3)فقال رايت نورا۔ ترجمہ: میں  نے نور دیکھا۔
(صحیح مسلم ،حدیث نمبر: 462،مستخرج أبی عوانۃ،کتاب الإیمان،بیان نزول الرب تبارک وتعالی إلی السماء الدنیا ، حدیث نمبر:287۔صحیح ابن حبان،کتاب الإسراء ،ذکر الخبر الدال علی صحۃ ما ذکرناہ ،حدیث نمبر:58۔طبرانی معجم اوسط،حدیث نمبر:8300،مسند احمد ،حدیث نمبر:21537۔جامع الأحادیث، حرف الراء ،حدیث نمبر:12640۔جمع الجوامع أو الجامع الکبیر للسیوطی، حرف الراء ، حدیث نمبر:12788۔صحیح ابن حبان،کتاب الإسراء ، حدیث نمبر:255۔مجمع الزوائد،حدیث نمبر:13840۔مسند أبی یعلی، حدیث نمبر:7163۔کنز العمال،حرف الفاء ،الفصل الثانی فی المعراج، حدیث نمبر:31864)

○ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا مفہوم

صحیح بخاری شریف میں روایت ہے: عن مسروق عن عائشة رضي الله عنها قالت: من حدثك أن محمدا صلی الله عليه و سلم رأي ربه فقد کذب و هو يقول ( لا تدرکه الأبصار ) ترجمہ : مسروق بیان کرتے ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جو شخص تم کو یہ بتائے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رب کو احاطہ کے ساتھ دیکھا ہے تو اس نے جھوٹ کہا- اللہ تعالی کا ارشاد ہے `لا تدرکه الابصار۔` آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیں ۔ (انعام103:)  (صحیح بخاری شریف کتاب التوحید باب قول اللہ تعالی عالم الغیب فلا یظہر علی غیبہ أحدا،حدیث نمبر:7380 )

اس حدیث پاک میں  مطلق دیدار الہی کی نفی نہیں ہے بلکہ احاطہ کے ساتھ دیدار کرنے کی نفی ہے اللہ تعالی کا دیدار احاطہ کے ساتھ نہیں  کیا جاسکتا۔ کیونکہ اللہ تعالی کی ذات اور اُس کی صفات لامحدود ہیں- ‘اس لئے احاطہ کے ساتھ دیدارِ خداوندی محال ہے ۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر احاطہ کے اپنے رب کا دیدار کیا ہے ۔

جامع ترمذی‘مسند احمد‘ مستدرک علی الصحیحین‘ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری‘ ،تفسیر ابن کثیر ‘‘سبل الہدی والرشاد" میں حدیث پاک ہے : عن عکرمة عن ابن عباس قال راي محمد ربه قلت اليس الله يقول لا تدركه الأبصار و هو يدرك الأبصار؟ قال و يحك إذا تجلي بنوره الذي هو نوره و قد راٰي محمد ربه مرتين۔ ترجمہ: حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: حضرت سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کا دیدار کیا ہے۔ میں  نے عرض کیا: کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک واحاطہ کرتا ہے؟ تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: تم پر تعجب ہے! جب اللہ تعالیٰ اپنے اُس نور کے ساتھ تجلی فرمائے جو اُس کا غیر متناہی نور ہے اور بے شک سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کا دو مرتبہ دیدار کیا ہے۔
(جامع ترمذی ،ابواب التفسیر ‘باب ومن سورۃ النجم ‘حدیث نمبر:3590۔ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، کتاب تفسیر القرآن، سورۃ والنجم،تفسیر ابن کثیر، سورۃ النجم5،ج7،ص442-سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد، جماع أبواب معراجہ صلی اللہ علیہ وسلم،ج3،ص61-مستدرک علی الصحیحین ، کتاب التفسیر ، تفسیرسورۃ الانعام ، حدیث نمبر:3191۔مسند احمد،معجم کبیر،تفسیرابن ابی حاتم ، سورۃ الانعام ، قولہ لاتدرکہ الابصار،حدیث نمبر:7767)

قال ابن عباس قد راه النبي صلي الله عليه وسلم۔ ترجمہ:  حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمانے فرمایا: حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کا دیدار کیا ہے۔ (جامع ترمذی شریف ، ج 2، ابواب التفسیر ص 164 ، حدیث نمبر:3202)۔
 مسند امام احمد میں  یہ الفاظ مذکور ہیں : عن عکرمة عن ابن عباس قال رسول الله صلي الله عليه وسلم رايت ربي تبارك و تعاليٰ ۔ ترجمہ: سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے اپنے رب تبارك و تعالیٰ کا دیدار کیا ۔ یہ حدیث پاک مسند امام احمد میں  دو جگہ مذکور ہے۔ (مسند امام احمد، حدیث نمبر:2449-2502)

وقال کعب ان الله قسم رؤيته و کلامه بين محمد و موسي فکلم موسی مرتين و راه محمد مرتين۔ ترجمہ: حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالی نے رؤیت اور کلام کو حضرت سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت موسی علیہ السلام کے درمیان تقسیم فرمایا دوبار حضرت موسی علیہ السلام سے کلام فرمایا اور دو مرتبہ حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رب کا دیدار کیا۔
(جامع ترمذی ،حدیث نمبر:3678‘ ابواب تفسیر القرآن)

امام طبرانی کی معجم اوسط میں  ہے: عن الشعبي أن عبد الله بن عباس کان يقول: إن محمدا صلي الله عليه وسلم رأي ربه مرتين۔ ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: بے شک سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کا دو مرتبہ دیدار کیا۔
(معجم اوسط طبرانی ، باب المیم من اسمہ:محمد ، حدیث نمبر:5922مواہب اللدنیہ۔ج8۔ص248)

لقي ابن عباس کعبا بعرفة فسأ له عن شئ فکبرحتي جاوبته الجبال فقال ابن عباس انا بنو هاشم نزعم او نقول أن محمدا قد رأي ربه مرتين ط- فقال کعب أن الله قسم رؤيته وکلامه بين موسي و محمد عليهما السلام فرأي محمد ربه مرتين وکلم موسي مرتين۔ ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حضرت کعب سے مقام عرفہ میں  ملاقات کی تو انہوں نے ایک چیز کے بارے میں سوال کیا تو حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے اتنا بلند نعرہ لگایا کہ پہاڑ گونجنے لگا اور فرمایا کہ "اللہ تعالی نے اپنی رؤیت اور کلام کو سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا موسی علیہ السلام کے درمیان رکھ دیا ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کا کلام سنا اور سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے رب کا دیدار کیا ۔
(تفسیر ابن کثیر‘ سورۃ النجم 5)

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "میں نے اپنے رب کا دیدار کیا۔"
 عن معاذ عن النبي صلي الله عليه وسلم قال "رأيت ربي۔"
 (کتاب الشفاء ،ج1،196/197)
حضرت امام عبدالرزاق رحمتہ اللہ علیہ جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے دادا استاذ ہیں، روایت فرماتے ہیں: کان الحسن يحلف بالله ثلاثة لقد رأي محمد ربه  ترجمہ: حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ اس بات پر تین مرتبہ قسم کھاتے تھے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کا دیدار کیا ۔
(تفسیر عبد الرزاق،حدیث نمبر:2940المواہب اللدنیہ۔ج8،ص،266)

 الروض الانف میں  ہے: عن ابن حنبل انه سئل هل راي محمد ربه؟ فقال: راه راه راه حتي انقطع صوته۔  ترجمہ: حضرت امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ آپ سے سوال کیا گیا: کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کا دیدار کیا؟ آپ نے فرمایا: دیدار کیا، دیدار کیا، دیدار کیا، اتنی دیر تک فرمایا کہ سانس ٹوٹ گیا۔
(الروض الانف‘ رؤیۃ النبی ربہ)

• شب معراج کے اعمال

اس متبرک رات امت محمدیہ علی صاحبھا الصلوۃ والسلام کو نماز کا تحفہ دیا گیا ‘ لہذا یہ عمل نہایت موزوں ہے کہ اہل اسلام اس رات قضاء عمری ‘صلوٰۃ التسبیح اور دیگر نوافل کا اہتمام کریں ، قرآن کریم کی تلاوت کریں اور کثرت سے درود شریف پڑھیں۔

حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے الغنیۃ لطالبی طریق الحق میں اپنی سند کے ساتھ احادیث شریفہ روایت کی ہیں
: عن ابي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وسلم قال من صام يوم السابع و العشرين من رجب کتب له ثواب صيام ستين شهرا۔ ترجمہ: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و اٰلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے ستائیسویں  رجب کا روزہ رکھا اس کے لئے ساٹھ(60) مہینے روزہ رکھنے کا ثواب ہے۔
(الغنیۃ لطالبی طریق الحق‘ ج1‘ ص182)

 عن ابي هريرة و سلمان  رضي الله عنهما قالا قال رسول الله صلي الله عليه وسلم إن في رجب يوما و ليلة من صام ذلک اليوم و قام تلک الليلة کان له من الأجر کمن صام مائة سنة و قام لياليها۔
 ترجمہ: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ و سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ رجب میں ایک ایسا دن اور ایسی رات ہے جو شخص اس دن روزہ رکھتا ہے اور اس رات قیام (نماز کا اہتمام) کرتا ہے اس کے لئے اس شخص کے برابر ثواب ہے جس نے سو سال روزہ رکھا اور سو سال کی راتیں عبادت میں گزاری۔ پھر آپ نے اس حدیث پاک کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: وهي لثلاثة يبقين من رجب۔ ترجمہ:
 وہ رجب کی ستائیسویں تاریخ ہے۔
 (الغنیۃ لطالبی طریق الحق‘ ج1‘ ص182,183)

No comments:

Post a Comment