Tuesday, 15 September 2015

بریلوی کون ہیں ؟

بریلوی‘‘ کیا ہے۰۰

سب سے پہلی بات تو یہ کہ "بریلوی" کوئی مسلک نہیں، یہ ایک نسبت ہے جو مخالفین کی طرف سے ہی دی گئی جس کی بنا پر آج عوام کو یہ مغالطہ دیا جاتا ہے کہ "بریلوی" ایک نئی اور فرقہ ناجیہ اہلسنت و الجماعت سے علیحدہ ایک جماعت ہے۔ مخالفین کے اس پروپیگنڈا کی اولین وجہ امامِ اہلسنت مجّددِ دین و ملّت الشاہ احمد رضاخاں قادری رضی اللہ عنہ کی دنیائے اسلام میں بےپناہ مقبولیت ہی رہی۔ اعلٰیحضرت رضی اللہ عنہ کی بدمذہبوں، دین کے اہزنوں اور گستاخانِ رسولﷺ کے غیراسلامی افکارونظریات کی سرکوبی کے ردّعمل کے طور پر محض ضد اور عناد کی بنا پر مخالفین نے انہیں اور ان کے ہم مسلک علما و مشائخ کو "بریلوی" کا نام دیا تاکہ ناواقف عوام کو یہ باور کراسکیں کہ دوسرے باطل فرقوں کی طرح یہ بھی ایک نیا فرقہ ہے جو سرزمینِ ہند میں پیدا ہوا اور اس سے پہلے اس فرقے کے افکارونظریات کا کوئی وجود نہیں تھا۔ ولاحول ولاقوۃ الاباللہ!

اس لئے میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ سب سے اپنوں اور بیگانوں کی تحریرات سے یہ واضح کردوں کہ بریلوی کوئی فرقہ نہیں بلکہ یہ وہی جماعت ہے جنہیں اہلسنت والجماعت ہونے کا شرف حاصل ہے۔

علما اہلسنت کی وضاحت؛

1۔ امام احمدرضاخان رضی اللہ عنہ کے پڑپوتے حضرت علامہ مولانا مفتی اختررضاخاں الازہری مدظلہ عالیہ سے ایک انٹرویو کے دوران جب سوال کیا گیا کہ پاکستان میں بعض لوگ اپنے آپ کو بریلوی کہتے ہیں اور بعض اپنے آپ کو دیوبندی، کیا یہ اچھی بات ہے۔ اس کے جواب میں حضرت ارشاد فرماتے ہیں کہ؛

"بریلوی کوئی مسلک نہیں۔ ہم مسلمان ہیں، اہلسنت والجماعت ہیں۔ ہمارا مسلک یہ ہے کہ ہم حضورﷺ کو آخری نبی مانتے ہیں، حضورﷺ کے اصحاب کا ادب کرتے ہیں، حضورﷺ کے اہلبیت سے محبت کرتے ہیں، حضورﷺ کی امت کے اولیااللہ سے عقیدت رکھتے ہیں، فقہ میں امامِ اعظم ابوحنیفہ کے مقلد ہیں۔ ہم اپنے آپ کو بریلوی نہیں کہتے، ہمارے مخالف ہمیں بریلوی کہتے ہیں۔(ماہنامہ ضیائے حرم، لاہور، فروری 1988، ص 14)

2۔ مبلغِ اسلام حضرت علامہ سیّد محمد مدنی فرماتے ہیں؛

غور فرمائیے کہ فاضلِ بریلی کسی نئے مذہب کے بانی نہ تھے۔ از اول تا آخر مقّلد رہے، ان کی ہر تحریر کتاب و سنّت اور اجماع وقیاس کی صحیح ترجماں رہی۔ نیز صالحین وائمہ مجتہدین کے ارشادات اور مسلکِ اسلاف کو واضح طور پر پیش کرتی رہیں۔ وہ زندگی کے کسی گوشے میں ایک پل کے لئے سبیلِ مومنین صالحین سے نہیں ہٹے۔ اب اگر ایسے شخص کے ارشاداتِ حقانیہ اور توضیحات وتشریحات پر اعتماد کرنے والوں، انہیں سلف ِصالحین کی روش کے مطابق یقین کرنے والوں کو بریلوی کہہ دیا گیا تو کیا بریلویت وسنّیت کا بالکل مترادف المعنی نہیں قرار دیا گیا؟ اور بریلویت کا وجود فاضلِ بریلی کے وجود سے پہلے تسلیم نہیں کرلیا گیا؟(تقدیم، دورِ حاضر میں بریلوی اہلسنت کا علامتی نشان، ص 10-11)

3۔ ماہرِ رضویات پروفیسرڈاکٹرمسعود احمد مظہری اس بارے میں فرماتے ہیں کہ؛

"امام احمد رضا پر ایک الزام یہ ہے کہ وہ بریلوی فرقے کے بانی ہیں۔ اگر تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بریلوی کوئی فرقہ نہیں بلکہ سوادِ اعظم اہلسنت کے مسلکِ قدیم کو عرفِ عام میں بریلویت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہ عرف بھی پاک وہند میں محدود ہے۔ اصل میں امام احمد رضا اور اس مسلکِ قدیم کے مخالفین نے اس کے بریلویت کے نام سے یاد کیا ہے اور بقول ابو یحییٰ امام خان نوشروی "یہ نام علما دیوبند کا دیا ہوا ہے"۔ ڈاکٹرجمال الدین (جامعہ حنفیہ، دہلی) نے بھی اپنے ایک تحقیقی مقالے میں یہی تحریر فرمایا ہے کہ یہ نام مخالفین کا دیا ہوا ہے۔(آئینہ رضویات، ص 300)

۔ آستانہ عالیہ شاہ آبادشریف کے سجادہ نشین صاحبزادہ سیّد محمد فاروق القادری اسے جاہلانہ اقدام قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں؛

"اہلسنت و جماعت کو بریلوی کہنا کسی طرح درست نہیں۔ اگر آج جماعتِ اسلامی کے افراد کو مودودی پارٹی کہیئے یا مودودئیے کہنا اور تبلیغی جماعت کو الیاسی جماعت کہنا درست نہیں تو آخر ملک کے سوادِ اعظم کو بریلوی کہنا کس منطق کی رو سے درست ہے؟ تعجب ہے کہ خود اہلسنت کے بعض اصحاب کو بھی اس کا احساس نہیں اور وہ بڑے فخر سے اپنے آپ کو بریلوی کہہ کر متعارف کراتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام بریلی یا دیوبند کی سرزمین سے نہیں پھوٹا۔ لہذا اس طرح کی تراکیب ونسبتیں اپنا عالمانہ نقطہ نظر سے فریقین کے لئے ایک جاہلانہ اقدام ہے۔(فاضلِ بریلی اور امورِ بدعت، ص 69)

اور کافی علما اہلسنت کے اقوال موجود ہیں لیکن سب کو یہاں پیش کرنا طوالت کا سبب ہوگا اس لئے اسی پر اکتفا کرتا ہوں۔ اب ذرا مخالفین کی گواہیاں ملاحظہ ہوں۔

1۔ سلیمان ندوی لکھتے ہیں؛

تیسرا فریق وہ تھا جو شدّت کے ساتھ اپنی روش پر قائم رہا اور اپنے آپ کو اہلِ سنہ کہتا رہا۔ اس گروہ کے پیشوا زیادہ تر بریلی اور بدایوں کے علما تھے۔(حیاتِ شبلی، ص 46)

2۔ ثنااللہ امرتسری نے 1938 میں یہ لکھتے ہیں:
اسّی سال پہلے قریباَ سب مسلمان اسی خیال کے تھے جن کو آج کل بریلوی حنفی خیال کیا جاتا ہے۔(شمع توحید، ص 53)

3۔ اہلسنت کے خلاف لکھی جانے والی کتاب میں بھی یہی گواہی ہے؛

"یہ جماعت اپنی پیدائش اور نام اور برِصغیر کے فرقوں میں اپنی شکل وشباہت کے اعتبار سے اگرچہ نئی ہے لیکن افکار اور عقائد کے اعتبار سے قدیم اور پہلے کی ہے۔(احسان الٰہی ظہیر، البریلویۃ (عربی) ، ص 7)

یہ اور بات ہے کہ اس کتاب کے مترجم عطاالرحمٰن ثاقب نے ترجمہ میں ان الفاظ کو ہی ہضم کرڈالا جن کا معنی تھا "اہلسنت افکاروعقائد کے اعتبار سے قدیم ہیں"، لیکن عربی نسخے میں اصل عبارت دکھائی جاسکتی ہے۔ یہی احسان الٰہی ظہیر یہ بھی لکھتے ہیں؛

"ابتداَ میرا گمان تھا کہ یہ فرقہ پاک وہند سے باہر موجود نہیں ہوگا مگر یہ گمان زیادہ دیر قائم نہیں رہا۔ میں نے یہی عقائد مشرق کے آخری حصے سے مغرب کے آخری حصے تک اور افریقا سے ایشیا تک اسلامی ممالک میں دیکھے۔(البریلویۃ، ص 10)

4۔ مولوی مظہرحسین دیوبندی ماہنامہ "حق چاریار" میں سیّد محمد بن علوی مالکی کے بارے میں لکھتے ہیں؛

"ایک موقع پر جناب علوی مالکی نے ایک مجلس میں کہا؛ سیّدی علامہ مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی کو ہم ان کی تصنیفات اور تالیفات کے ذریعے جانتے ہیں۔ وہ اہلسنہ کے علامہ تھے۔ ان سے محبت کرنا سنّی ہونے کی علامت ہے اور ان سے بغض رکھنا اہل بدعت کی نشانی ہے۔

اعلیٰحضرت کی ایک ہزار سے زائد کتب اور ان کی تعلیمات و تحریرات آج بھی موجود ہیں اور ان میں کتاب و سنت کے خلاف یا ان سے متضاد کوئی بات پیش نہیں کی جا سکی ہے بلکہ ان کے مخالفین نے بھی انہیں سچا عاشق رسول
اور عالم حق تسلیم کیا ہے۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment